اس میں کوئی شک نہیں کہ مریضوں کی تیمارداری کرنا نہایت اہم فن ہے اور جتنا اہم ہے اتنا ہی اپنی نوعیت کے لحاظ سے عبادت کا بھی درجہ رکھتا ہے کہ اس میں صبر و تحمل، ایثار، ہمدردی اور محبت کی سخت ضرورت ہے اور یہ صفات خدا ترس اور درد آشنا دل رکھنے والے انسان ہی میں پائی جاتی ہیں مگر اس فن سے واقفیت حاصل کرنا ہر انسان خصوصاً خواتین کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ ہر گھر میں بیماری آسکتی ہے لہٰذا امورِ خانہ داری میں فن ِ تیمارداری کو خصوصیت کے ساتھ کچھ دخل ہے، جو اپنے مختلف اصولوں کے اعتبار سے بہت وسیع معنی رکھتا ہے۔
بیماریوںکے کھانوں کی طرف گھر والوں اور خصوصاً تیماردار کو خصوصی توجہ سے کام لینا چاہیے، ان کی غذا، طاقت بخش، زودہضم ہو، مختلف امراض میں بعض چیزوں سے قطعی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ وہ چیزیں مریض کے لیے سخت مضر ہوتی ہیں۔ غذا کی تیاری میں توجہ، ہمدردی اور سلیقے مندی کی ضرورت ہے تاکہ غذا جلی ہوئی کڑوی، کسیلی، زیادہ نمکین و میٹھی اور مریض کی مرضی و پسند کے خلاف نہ ہو۔ بیماری کے حملوں کی وجہ سے مریض کی طبیعت چڑچڑی اور زود رنج ہو جاتی ہے، اس کا دل ذرا سی بات کو بھی جلد محسوس کرلیتا ہے اور اس کی طبیعت رنجیدہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے خوش ذائقہ غذا تیار کرکے خوشنمائی اور خلوص و محبت کے ساتھ مریض کے سامنے لائی جائے تاکہ مریض کی بھوک کُھل جائے اور وہ رغبت سے کھانا کھالے، کیونکہ مقوی غذا پر ہی مریض کی تندرستی کا دارومدار ہے۔بیمار کے سامنے ایک دفعہ میں بہت سا کھانا نہ لایا جائے بلکہ مختلف چیزیں چھوٹی چھوٹی صاف پلیٹوں میں تھوڑی تعداد میں نکالی جائیں۔ رات کو مریض کو جگا کر کھانا کھلانے کی کبھی کوشش نہ کریں۔
ایک دن پہلے پکائی ہوئی غذا مریض کو نہیں کھلانی چاہیے اور جن چیزوں کو کھانے سے ڈاکٹروں نے مریضوں کو منع کیا ہے اس کے سامنے نہ لائی جائیں‘ نہ کھائی جائیں بلکہ ہر دوسرے یا تیسرے گھنٹے کے بعد تھوڑا تھوڑا دودھ، سوپ، کم پکے ہوئے انڈے، چاول کا پانی، اراروٹ، ساگودانہ، دلیہ، تازہ پھلوں کا رس، بھنے ہوئے آلو، ڈبل روٹی کے سلائس، دُھلی ہوئی مونگ کی دال کی نرم کھچڑی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دیتے رہیں۔ آج کل ڈاکٹر ہر قسم کے مریضوں کو زیادہ سے زیادہ پانی پلانے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ پانی کی فراوانی سے جسم کے فاسد مادے نکل جاتے ہیں۔ آنتوں اور گردوں کی صفائی ہو جاتی ہے۔ مریض کے پینے والا پانی اُبال کر چھان کر ٹھنڈا کرلیا جائے کیونکہ ہر شخص منرل واٹر خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مریض کو دودھ بالائی اتار کردیا جائے، کیونکہ بالائی ثقیل ہوتی ہے۔ سوپ یا یخنی بغیر چربی کے گوشت (جس کے لیے گردن کا گوشت بہتر مانا جاتا ہے) یا پھر چوزے کے گوشت کا بنایا جائے مگر بوٹی نہ کھلائی جائے۔ اراروٹ زود ہضم اور ہلکی غذا ہے۔ حریرہ یا دلیہ جو گیہوں کے آٹے سے موٹی سوجی نکال کر بنایا جاتا ہے یہ بذات خود بڑی طاقت بخش غذا ہے۔
مریض کی خدمت یعنی تیمارداری عطیہ خداوندی ہے اور اس کو انجام دینے والا دنیا کی مقبولیت کے علاوہ آخرت کے انعامات کا بھی مستحق ہوتا ہے کہ اس نے خدا کے ایک کمزور و ناتواں مجبور اور معذور بندے کی دادرسی اور خبر گیری کا کام نہایت صبر و تحمل اور محنت سے انجام دے کر حق انسانیت ادا کیا اور اگر اس میں خدا اور رسول ﷺ کی خوشنودی کا خیال مقدم ہےتو اس کے اجر کا اندازہ لگانا انسان کے بس کی بات نہیں۔ گو کہ یہ کام خدا مسبب الاسباب ضرورت کے وقت کسی نہ کسی سے انجام دلاہی دیتا ہے کہ مصیبت میں بندوں کی مدد بجز اس کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ اپنوں کا وجود تیمارداری کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ خالق عالم نے رشتوں کا تسلسل اسی لیے وابستہ کردیا ہے کہ بوقت ضرورت ایک دوسرے کے کام آسکیں اور خلوص و ہمدردی کے ساتھ مریض کی عیادت کرسکیں، ورنہ غیروں اور عزیزوں میں کوئی فرق نہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں